حج
وکیپیڈیا سے
مقالہ بہ سلسلۂ مضامین اسلام |
عـقـائـد و اعـمـال |
خدا کی وحدانیت |
اہـم شـخـصـیـات |
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم |
کـتـب و قـوانـیـن |
مسلم مکتبہ ہائے فکر |
معاشرتی و سیاسی پہلو |
اسلامیات • فلسفہ |
مزید دیکھیئے |
اسلامی اصطلاحات |
حج اسلام کے 5 ارکان کا آخری رکن ہے۔ تمام عاقل، بالغ اور صاحب استطاعت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتب حج بیت اللہ فرض ہے جس میں مسلمان سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں قائم اللہ کے گھر کی زیارت کرتے ہیں۔ حج اسلامی سال کے آخری مہینے ذوالحج میں ہوتا ہے۔
سعودی حکومت حج کے لئے خصوصی ویزے جاری کرتی ہے۔
فہرست |
[ترمیم کریں] اہمیت
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
"اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں، اور نماز كى پابندى كرنا، اور زکوۃ ادا كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا، اور بيت اللہ كا حج كرنا"۔
حج بيت اللہ كتاب و سنت كے دلائل اور اجماع مسلمين كے اعتبار سے فرض ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور لوگوں پر اللہ تعالى كے ليے بيت اللہ كا حج كرنا فرض ہے، جو اس كى طاقت ركھے، اور جو كوئى كفر كرے اللہ تعالى جہان والوں سے بے پرواہ ہے۔ سورہ آل عمران آیت97۔
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
"يقينا اللہ تعالى نے تم پر حج فرض كيا ہے اس ليے تم حج كرو"۔
[ترمیم کریں] اجماع امت
مسلمانوں كا اس كى فرضيت پر اجماع ہے اور اس ليے جو كوئى بھى اس كى فرضيت كا انكار كرے اور وہ مسلمانوں كے مابين رہائش پذير ہو تو وہ كافر ہو گا، ليكن اگر کوئی شخص سستى و كاہلى كے ساتھ اسے ترك كرتا ہے تو وہ بھى عذاب عظیم کا مستحق ہے۔
كيونكہ بعض علماء كرام كا كہنا ہے:
وہ كفر كا مرتكب ہو گا، يہ قول امام احمد كى ايك روايت ہے، ليكن راجح يہى ہے كہ نماز كے علاوہ كوئى اور عمل ترك كرنے والا كافر نہيں ہوگا تابعين ميں سے عبد اللہ بن شقيق رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام نماز كے علاوہ كسى اور عمل كو ترك كرنا كفر نہيں سمجھتے تھے۔
اس ليے جو كوئى بھى حج كرنے ميں سستى اور كاہلى كا مظاہرہ كرے حتى كہ اسے موت آجائے تو وہ راجح قول كے مطابق كافر نہيں، ليكن يہ بہت بڑے اور خطرناك معاملہ ميں ہے۔
اس ليے مسلمان شخص كو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے جب حج كى شروط پورى ہو جائيں تو فورى اور جتنى جلدى ہو سكے حج كر لينا چاہئے كيونكہ جتنى بھى فرض اشياء ہيں وہ فورى طور پر سرانجام دينى چاہئيں ليكن اگر اس كى تاخير ميں كوئى دليل ہو تو كوئى حرج نہيں۔
[ترمیم کریں] فرضیت کی شرائط
فرضيت حج كى پانچ شرطيں ہيں:
پہلى شرط:
اسلام: اس كى ضد كفر ہے اس ليے كافر پر حج فرض نہيں، بلكہ اگر كافر حج كرے بھى تو اس كا حج قبول نہيں ہو گا۔
دوسرى شرط:
بلوغت: اس ليے نابالغ بچے اور بچى پر حج فرض نہيں اور اگر بچے نے بلوغت سے قبل حج كر بھى ليا تو اس كا حج صحيح ہے اور يہ نفلى حج ہو گا اس كا اجر و ثواب بھى اسے حاصل ہو گا، ليكن بالغ ہونے كے بعد اسے فرضى حج كى ادائيگى كرنا ہو گى، كيونكہ بلوغت سے قبل حج كرنے سے فرضى حج ادا نہيں ہوتا۔
تيسرى شرط:
عقل: اس كا ضد جنون اور پاگل پن ہے، اس ليے مجنون پر حج فرض نہيں، اور نہ ہى اس كى جانب سے حج كيا جائے گا۔
چوتھى شرط:
آزادى: اس ليے غلام پر حج فرض نہيں، اور اگر وہ حج كرے تو اس كا حج صحيح ہے اور يہ نفلى حج ہو گا، اور جب وہ آزاد ہو جائے تو اس پر حج فرض ہے استطاعت كے بعد اس كى ادائيگى كرے گا، كيونكہ آزاد ہونے سے قبل حج كى ادائيگى سے فرضى حج ادا نہيں ہوتا۔
بعض علمائے كرام كا كہنا ہے كہ:
جب غلام اپنے مالك كى اجازت سے حج كرے تو يہ فرضى حج سے كفایت كر جائے گا اور راجح قول بھى يہى ہے۔
پانچويں شرط:
مالی اور بدنی استطاعت: عورت كے ليے محرم كا ہونا استطاعت ميں شامل ہے، اگر اس كا محرم نہيں تو اس پر حج فرض نہيں ہو گا "۔
[ترمیم کریں] حج کا طریقہ
اول:
1 - حاجى 8 ذى الحجہ كو مكہ يا حرم كے قريب سے احرام باندھے، اور حج كا احرام باندھتے وقت وہى كام كرے جو عمرہ كا احرام باندھتے وقت كيے جاتے ہيں، مثلا غسل كرے اور خوشبو لگائے، اور حج كى نيت سے احرام باندھ كر تلبيہ كہے، اور حج كا تلبيہ بھى وہى ہے جو عمرہ كا تلبيہ تھا، صرف اتنا ہے كہ وہ لبيك عمرۃ كى بجائے لبيك حجا كہے، اور اگر كسى مانع كا خطرہ ہو جو اسے حج مكمل نہ كرنے دے تو شرط لگاتے ہوئے يہ الفاظ كہے:
" و ان حبسنى حابس فمحلى حيث حبستنى "
اگر مجھے روكنے والى چيز نے روك ديا تو جہاں مجھے روكا گيا وہى ميرے حلال ہونے كى جگہ ہے۔
اور اگر كسى مانع كا خدشہ نہ ہو تو پھر شرط لگانے كى كوئى ضرورت نہيں ہے۔
2 - پھر منى كى طرف روانہ ہو اور وہاں رات بسر كرے، اور نماز پنجگانہ ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر كى نماز منى ميں ہى ادا كرے.
3 - 9 تاريخ كا سورج طلوع ہونے كے بعد عرفات كى طرف روانہ ہو اور وہاں ظہر اور عصر كى نمازيں جمع تقديم ( يعنى ظہر كے وقت ميں ) اور قصر كر كے ادا كرے، اور پھر اللہ تعالى كا ذكر اور دعاء اور استغفار كرنے كى زيادہ سے زيادہ كوشش كرے، حتى كہ سورج غروب ہو جائے۔
4 - جب سورج غروب ہو جائے تو مزدلفہ كى طرف روانہ ہو اور مغرب اور عشاء كى نمازيں مزدلفہ پہنچ كر ادا كرے، اور پھر نماز فجر تك وہيں رات بسر كرے، اور نماز فجر كے بعد طلوع شمس سے قبل تك اللہ تعالى كا ذكر اور اس سے دعا كرے۔
5 - پھر جمرہ عقبہ جو كہ آخرى اور مكہ كى جانب ہے كو كنكرياں مارنے كے لئے وہاں سے منى كى طرف جائے، اور اسے مسلسل سات كنكرياں مارے اور ہر كنكرى كے ساتھ اللہ اكبر كہے، اور يہ كنكرى تقريبا كھجور كى گھٹلى كے برابر ہونى چاہئے۔
پھر قربانى كرے، جو كہ ايك بكرى، يا پھر اونٹ يا گائے كا ساتواں حصہ ہے۔
7 - پھر مرد اپنا سر منڈائے اور عورت اپنے بال تھوڑے سے كٹوائے نہ كہ منڈوائے جو سارے بالوں ميں سےايك پورے كے برابر ہوں۔
8 - پھر طواف كرنے كے ليے مكہ جائے.۔
9 - پھر منى ميں واپس وہ راتيں بسر كرے، يعنى گيارہ، بارہ ذوالحجہ كى راتيں، اورہر دن زوال ہو جانے كے بعد تينوں جمرات كو كنكرياں مارے، ہر جمرہ كو سات كنكرياں ماريں گے، اور جمرہ صغرى يعنى چھوٹے سے كنكری مارنى شروع ہونگى، جو كہ مكہ سے دور ہے، پھر درميانے كو مارے، اور ان دونوں كے بعد دعاء كرے، اور پھر جمرہ عقبہ كو كنكرياں مارے ليكن اس كے بعد دعاء نہ كرے.
10 - جب 12 تاريخ كى كنكرياں مار لے اور وہ جلدى كرنا چاہے تو غروب آفتاب سے قبل منى سے نكل جائے، اور اگر چاہے تو اس ميں تاخير كرتے ہوئے 13 تاريخ كى رات منى ميں بسر كے اور زوال كے بعد تينوں جمرات كى رمى كرے، جيسا كہ بيان ہو چكا ہے، اور تيرہ تاريخ تك تاخير كرنا افضل ہے ليكن واجب نہيں، ليكن اگر بارہ تاريخ كا سورج غروب ہو جائے اور وہ منى سے نہ نكل سكے تو اس صورت ميں اسے تيرہ تاريخ كى رات بھى منى ميں ہى بسر كرنا ہو گى حتى كہ نزول كے بعد رمى جمرات كر كے منى سے آنا ہو گا۔
ليكن اگر 12 تاريخ كا سورج غروب ہونے كے وقت وہ منى ميں ہى ہو اور يہ اس كے اختيار كى بنا پر نہ ہوا ہو مثلا وہ جانے كے تيار ہو كر گاڑى پر سوار ہو چكا ہو ليكن رش كى بنا پر وہاں سے نہ نكل سكے تو پھر اس كے ليے تيرہ تاريخ تك ركنا لازم نہيں كيونكہ غروب آفتاب تك تاخير اس كے اختيار كے بغير ہوئى ہے۔
11 - جب يہ ايام ختم ہو جائيں اور وہ اپنے ملك يا علاقہ كى طرف سفر كرنا چاہے تو بيت اللہ كا طواف كئے بغير نہ جائے، صرف حائضہ اور نفاس والى عورت اس ميں شامل نہيں كيونكہ ان دونوں پر طواف وداع نہيں ہے۔
12 - اور اگر كوئى شخص كسى دوسرے كى طرف سے حج تمتع كر رہا ہو چاہے وہ اس كا قريبى ہو يا كوئى دوسرا شخص تو اس كے ليے ضرورى ہے كہ اس نے اپنا فرضى حج كيا ہوا ہو، اور حج كا طريقہ وہى ہو گا صرف نيت ميں فرق ہے كہ وہ اس شخص كى طرف سے حج كى نيت كرتے ہوئے تلبيہ ميں اس شخص كا نام پكارتے ہوئے لبيك عن فلان كہے گا، اور پھر حج ميں اپنے اور اس شخص كے ليے دعاء كرے گا۔
یہ ابھی نامکمل مضمون ہے۔آپ اس میںترمیم کرکے مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔
زمرہ جات: نامکمل | اسلام | ارکان اسلام